Monday, 12 September 2011

اب تک وہی خواب ہیں وہی میں

اب تک وہی خواب ہیں وہی میں
وہی میرے گلاب ہیں وہی میں

آنکھوں میں وہی ستارہ آنکھیں
وہی دل میں گلاب ہیں وہی میں

یہ جسم کہ جاں کی تشنگی ہے
وہی تازہ سراب ہیں وہی میں

زندہ ہوں ابھی تو مات کیسی
وہی جاں کے عذاب ہیں وہی میں

کہتی ہے زباں خموشیوں کی
وہی درد کے باب ہیں وہی میں

پڑھتے ہوئے جن کو عمر گزری
وہی چہرے کتاب ہیں وہی میں

لکھتے ہوئے جن کو جان جائے
وہی حرف نصاب ہیں وہی میں

وہی رنجشیں اپنے دوستوں سے
وہی دل کے حساب ہیں وہی میں

آتے ہیں مگر نہیں برستے
وہی تشنہ سحاب ہیں وہی میں

دنیا کے سوال اور دنیا
وہی میرے جواب ہیں وہی میں

No comments:

Post a Comment